اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) وزیراعظم پاکستان کا معاشی اصلاحات کو دنیا کے لیے مثال قرار
Share
اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے معاشی اصلاحات کو دنیا کے لیے مثال قرار دیا ہے وزیراعظم کا کہنا ہے کہ پاکستان کی معاشی اصلاحات اور ڈیجیٹائیزیشن کامیاب کیس اسٹڈی کے طور پر دنیا بھر میں مثال بن گئی ہے۔ وزیراعظم نے اس پختہ عزم کا اظہار کیا کہ وہ پاکستانی عوام کی خوشحالی اور ملک کو بیرونی قرضوں سے مکمل نجات دلانے تک محنت جاری رکھیں گے۔عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے حالیہ مالی اجراء اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کیلئے ضروری اقدامات پر عملدرآمد کر رہا ہے۔ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان میں معاشی اصلاحات اور اقدامات کے مؤثر نفاذ پر اظہار اطمینان بالخصوص وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور ان کی ٹیم کی محنت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔وزیراعظم نے اس امر کا بھی اعتراف کیا کہ اصلاحاتی ایجنڈے کے نفاذ اور پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ ہموار کرنے میں چیف آف آرمی سٹاف اور چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی معاونت کا کلیدی کردار ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ ڈیفالٹ کے دہانے سے ملک کو استحکام اور ترقی کی سمت میں گامزن کرنا ایک کٹھن مرحلہ تھا جس کیلئے سب نے مل کر قربانی دی۔سیاسی جماعتوں نے سیاست کی قربانی دے کر اور قوم نے معاشی مشکلات برداشت کرکے نا ممکن کو ممکن کر دکھایا۔
پاکستان میں معاشی اصلاحات سے معاشی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد ملی ہےاس وجہ سے عالمی اقتصادی اداروں کا پاکستان پر اعتماد بڑھ گیا ہے۔جس پر عالمی مالیاتی ادارے , آئی ایم ایف نے پاکستان کو ایک ارب 20 کروڑ ڈالر منتقل کر دئیے ہیں۔
پاکستان کی معیشت استحکام کی طرف گامزن ہے، جس کی وجہ سے ایڈیبی نے 2025 کے مالی سال کے لیے 2.5% کی شرح نمو کی پیش گوئی کی ہے یہ استحکام سخت ماکرو اقتصادی پالیسیوں اور اقتصادی اصلاحات میں پیشرفت کے نتیجے میں ہے ,جولائی 2023 کے بعد سے معیشت مستحکم رہی، مہنگائی ختم ہو گئی، زرمبادلہ ذخائر بڑھے اور درآمدات کے لیے کور کم از کم ڈھائی ماہ تک پہنچ گیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت 2026 میں بڑھنے کی پیش گوئی کی گئی ہےاس کی وجہ صنعتی سرگرمیوں میں بہتری اور خدمات کے شعبے میں توسیع ہے
پاکستان کی معاشی استحکام کے اہم عوامل میں منصفانہ تجارت ہے جو سیرت النبی ﷺ کی تعلیمات منصفانہ تجارت کی اہمیت پر زور دیتی ہیں، جو معیشت میں اعتماد اور استحکام کو فروغ دیتی ہے اس سے قرض لینے اور قرض دینے کے ذمہ دارانہ طریقوں کی حوصلہ افزائی کے نتیجے میں قرض کے بحران کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے نیزتعلیم ایک ہنرمند افرادی قوت تیار کرنے کی کلید ہے جو معاشی ترقی اور ترقی کے لیے ضروری ہے یہ عوامل پاکستان کی معاشی استحکام کے لیے اہم ہیں اور اس کی ترقی اور خوشحالی میں مدد کر سکتے ہیں۔حکومت نے آئی ایم ایف کو مالی ڈسپلن برقرار رکھنے، معاشی اصلاحات پر تسلسل سے عملدرآمد جاری رکھنے اور مہنگائی کو مقررہ حد میں رکھنے کیلئے مزید اقدامات کی یقین دہانی کروائی ہے ذرائع کے مطابق اگلے مالی سال کا بجٹ بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق تیار کیا جائے گا۔ حکومت نے کوئی نئی ایمنسٹی اسکیم نہ لانے اور ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کی بھی یقین دہانی کرا دی ہے رواں مالی سال ٹیکس ریونیو شارٹ فال پورا پورا کرنے کے لیے نئے ٹیکس اقدامات کی تجویز ہے۔ مجوزہ منی بجٹ کی صورت میں اضافی ٹیکس اقدامات کا آپشن موجود ہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں کی باقاعدہ ایڈجسٹمنٹ جاری رکھنا ہونگی۔ گردشی قرضے پر قابو پانے، توانائی سیکٹر کے نقصانات میں کمی کی بھی یقین دہانی کرائی گئی ہے کھاد اور زرعی کیمیکلز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے کی شرط برقرار ہے۔ حکومت نے اگلے سال سرکاری اداروں کے قوانین میں ترمیم کی بھی یقین دہانی کرا دی۔ کرپشن اینڈ گورننس اصلاحات کا ایکشن پلان بھی شائع کرنا ہوگا۔ سرکاری شعبے میں حکومتی مداخلت کو مزید کم کرنے، اسٹیٹ بینک کو لکچدار ایکسچینج ریٹ پر سختی سے عمل کرنے کی شرائط برقرار ہے۔ مہنگائی قابو میں رکھنے کے لیے سخت مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے جبکہ سماجی شعبے کے تحفظ،صحت اور تعلیم پر اخراجات بڑھانے پرزور دیا گیا ہے۔معاشی اشاریوں کی تازہ تفصیل بھی جاری کردی گئی ہے جس کے مطابق جی ڈی پی گروتھ 3 سے بڑھ کر 3.2 فیصد تک جانے کی توقع ہے۔ بے روزگاری 8.3 فیصد سے کم ہوکر 7.5 فیصدرہے گی۔ اوسط مہنگائی 4.5 فیصد سے بڑھ کر 6.3 تک جانے کا امکان ہے۔بجٹ خسارہ 5.6 فیصد سے کم ہو کر 4 فیصد تک رہنے کا تخمینہ ہے۔قبل ازیں آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کی قسط منظور کرلی۔ ای ایف ایف پروگرام سے ایک ارب جبکہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے فریم ورک کے تحت 20 کروڑ ڈالر ملیں گے آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کا قرض پروگرام پر عملدرآمد قابلِ تعریف ہے۔ پالیسی اقدامات کے نتیجے میں معیشت میں استحکام اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہواہے عالمی بینک نے مالی سال 2025 میں پاکستان کی جانب سے حاصل کیے گئے ’قابل ذکر معاشی استحکام‘ کو سراہا ہےمضبوط ریونیو کی وصولی کے باعث پرائمری مالیاتی سرپلس 2.4 فیصد کی تاریخی سطح پر پہنچ گیا ہے ۔
ترسیلات زر میں ریکارڈ اضافے اور مستحکم شرح مبادلہ کے نتیجے میں ملک نے 0.5 فیصد جی ڈی پی کا کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس حاصل کیا، جو دو دہائیوں میں سب سے زیادہ ہے بڑھتی ہوئی تعمیرات اور لاجسٹکس سیکٹر اور خوراک کی مہنگائی میں تیزی سے کمی کی وجہ سے غربت کی شرح مالی سال 2025 میں25.3 فیصد سے کم ہو کر 22.2 فیصد پر آ گئی۔
رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو بار بار آنے والے ’بوم بسٹ سائیکل‘ سے نکلنے کے لیے برآمدات پر مبنی معیشت کی طرف جانا ضروری ہے۔پاکستان میں برآمدات کی 60 ارب ڈالر کے قریب غیر استعمال شدہ صلاحیت موجود ہے، جسے حاصل کرنے کے لیے ملک کو اپنی برآمدی جی ڈی پی کی حصہ داری کو دوگنا کرنا ہو گا۔ حکومت نے مالی سال 2026 کے بجٹ میں پانچ سالہ نیشنل ٹیرف منصوبہ منظور کیا ہے تاکہ سادہ اوسط ٹیرف کو 2030 تک 20.2 فیصد سے کم کر کے 9.7 فیصد تک لایا جا سکے۔ ان اصلاحات کا مقصد برآمد کنندگان کے لیے ان پٹ لاگت کو کم کرنا ہے۔تاہم برآمد کنندگان کے لیے بجلی کی زیادہ قیمتیں اور حکومت کی جانب سے قرض لینے کی وجہ سے نجی شعبے کے لیے محدود مالیاتی رسائی اب بھی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ عالمی بینک نے ایکسپورٹ امپورٹ بینک کو مکمل طور پر فعال کرنے پر زور دیا ہے۔ ۔
یاد رکھیں کہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان نے معاشی استحکام حاصل کر لیاہے آئی ایم ایف پروگرام کے بعد مالیاتی و توانائی اصلاحات جاری ہیں، پاکستان کی برآمدات میں بہتری سے آئی ٹی سروسز کو فروغ ملا۔ خلیجی ممالک سے ترسیلات زر 18 سے 20 ارب ڈالر سالانہ متوقع ہے، تباہ کن سیلاب کےباعث ملک کی معاشی ترقی میں 0.5 فیصد کمی آئی۔ پاکستان میں تجارتی تیز اور ٹیکنالوجی میں نئے مواقع ہیں، مصنوعی ذہانت اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز سمیت قطر کے ساتھ شراکت داری میں اضافہ ہوا۔ دوحہ فورم سے خطاب کرتے ہوئےوفاقی وزیر خزانہ نے قطر کے ساتھ ایل این جی، زرعی اور ٹیکسٹائل شعبے میں تعاون مضبوط بنانے کے عزم کا اظہار کیا جبکہ موسمیاتی سرمایہ کاری پر زور دیاتھاوزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کا 1.3 ارب ڈالر آر ایس ایف پروگرام موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کیلئے ہے سی پیک فیز ٹو میں انفراسٹرکچر سے بزنس ٹو بزنس سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا۔ نوجوان فری لانسرز بلاک چین،اے آئی اور ڈیجیٹل مہارتوں سے آمدنی بڑھا سکتے ہیں، قطر کیساتھ ایف ٹی اے سے توانائی اور مصنوعی ذہانت میں شراکت داری مزید مضبوط ہوگی
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے 8 دسمبر 2025 کو ہونے والی اپنی میٹنگ میں ایکسٹینڈڈ فنڈ فیسلٹی (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے لیے دوسرا جائزہ مکمل کیا اور 760 ملین ایس ڈی آر کی رقم کی منظوری دی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نےکہا ہے کہ اسے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے ایکسٹینڈڈ فنڈ فسیلٹی (ای ایف ایف) اور ریزیلیئنس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فسیلٹی (آر ایس ایف) کے تحت تقریباً 1.2 ارب ڈالر موصول ہو چکے ہیں۔
مزید برآں، آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے ریزیلینس اینڈ سسٹین ایبلیٹی فیسلٹی (آر ایس ایف) کے تحت 154 ملین ایس ڈی آر کی پہلی قسط کی منظوری بھی دی۔
جس کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو ای ایف ایف اور آر ایس ایف کے تحت مجموعی طور پر 914 ملین ایس ڈی آر (تقریباً 1.2 ارب امریکی ڈالر کے مساوی) موصول ہو چکے ہیں جو 10 دسمبر 2025 کو آئی ایم ایف کی جانب سے ادا کیے گئے۔مزید بتایا ہےکہ یہ رقم 12 دسمبر 2025 کو ختم ہونے والے ہفتے کے لیے اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں ظاہر ہوگی۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ نے پیر (8 دسمبر ) کو پاکستان کے لیے ای ایف ایف اور آر ایس ایف کے تحت 1.2 ارب ڈالر کی رقم کی منظوری دی تھی۔
ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس کے بعد ڈپٹی منیجنگ ڈائریکٹر نائیجل کلارک نے بیان جاری کیا تھا کہ ای ایف ایف کے تحت پاکستان کی اصلاحات نے حالیہ متعدد جھٹکوں کے باوجود معاشی استحکام کو برقرار رکھنے میں مدد دی ہے۔
حقیقی جی ڈی پی کی ترقی تیز ہوئی، مہنگائی کی توقعات مستحکم رہیں، اور مالی اور بیرونی عدم توازن میں بہتری آئی۔ عالمی ماحول کی بے یقینی کے باوجود پاکستان کو محتاط پالیسیوں کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ معاشی استحکام مزید مضبوط ہو، اور وہ اصلاحات تیز کرے جو مضبوط، پرائیویٹ سیکٹر پر مبنی اور پائیدار درمیانی مدت کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔
آئی ایم ایف کی ایک ٹیم جس کی قیادت ایوا پیٹرووا نے کی، نے 24 ستمبر سے 8 اکتوبر 2025 کے دوران کراچی , اسلام آباد اور واشنگٹن ڈی سی میں ای ایف ایف کے دوسرے جائزے اور آر ایس ایف کے پہلے جائزے کے لیے بات چیت کی۔
عالمی بینک کے بعد ایشیائی ترقیاتی بینک,اے ڈی بی نے بھی پاکستان کے لیے قرض کی منظوری دے دی، اے ڈی بی نے پاکستان کے لیے 54 کروڑ ڈالر کے دو منصوبوں جبکہ ورلڈ بینک نے پاکستان کے لیے 40 کروڑ ڈالر فنانسنگ کی منظوری دی ہے۔اے ڈی بی نے پاکستان کے لیے مجموعی طور پر 54 کروڑ ڈالر کے دو منصوبوں کی منظوری دے دی ہے، جن میں ایک رزلٹ بیسڈ لون پروگرام اور سندھ میں ماحولیاتی تحفظ سے متعلق بڑا منصوبہ شامل ہے بیان میں کہا گیا ہے کہ40 کروڑ ڈالر کا رزلٹ بیسڈ لون پروگرام سرکاری اداروں کی گورننس اور کارکردگی بہتر بنانے پر فوکس کرے گا۔ اس پروگرام میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کی ری اسٹرکچرنگ اور کمرشلائزیشن بھی شامل ہے۔ اے ڈی بی کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ سال میں اسٹیٹ اونڈ انٹرپرائزز (ایس او ایز) کی اصلاحات میں نمایاں پیش رفت ہوئی ہے، جبکہ 2023 میں ایس او ایز ایکٹ اور پالیسی کا نفاذ اہم سنگِ میل رہا۔ بینک کے مطابق اصلاحاتی عمل کے نفاذ کے لیے 7 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی تکنیکی معاونت بھی فراہم کی جائے گی۔
بتایا گیاہے کہ 14 کروڑ ڈالر سندھ کوسٹل ریزیلینس سیکٹر پروجیکٹ کے لیے منظور کیے گئے ہیں، جس سے پانچ لاکھ افراد براہِ راست مستفید ہوں گے۔ منصوبے کے تحت 1 لاکھ 50 ہزار ہیکٹر زرعی زمین کو سیلابی خطرات سے تحفظ ملے گا اور 22 ہزار ہیکٹر جنگلات کی بحالی کا ہدف بھی مقرر کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ غذائی تحفظ، حیاتیاتی تنوع اور مجموعی ماحولیاتی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا۔ منصوبے کے لیے گرین کلائمٹ فنڈ کی دو کروڑ ڈالر گرانٹ اور دو کروڑ ڈالر کنسیشنل لون کے ذریعے کو-فنانسنگ بھی کی جائے گی۔ عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 40 کروڑ ڈالر قرض کی منظوری دے دی ہے۔ اعلامیہ کے مطابق رقم پانی، صفائی اور بنیادی حفظانِ صحت کے منصوبوں کے لیے صوبہ پنجاب میں شہروں میں صفائی اور پانی کی سہولیات کے لیے خرچ ہوگی۔یہ پروگرام پنجاب کے 16 شہروں میں شروع کیا جائےگا۔ پروگرام سیوریج سسٹمز،پانی کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بہتری اور بحالی میں مدد کرے گا۔
ایشیائی ترقیاتی بینک ( اے ڈی بی) نے پاکستان کے ریکوڈک منصوبے کے لیے 41 کروڑ ڈالر پیکیج کی منظوری دے دی ہے۔بلوچستان میں مجوزہ اوپن پٹ منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے غیر استعمال شدہ تانبے اور سونے کے ذخائر کو قابل استعمال بنانے کی کوشش ہے، جس کی پیداوار 2028 میں شروع ہونے کی توقع ہےایشیائی ترقیاتی بینک کے پیکیج میں کینیڈین کمپنی بیریک کو 30 کروڑ ڈالر کا قرض اور مقامی حکومت کے لیے 11 کروڑ ڈالر تک کی رقم کی ضمانت شامل ہے۔منصوبہ مکمل ہونے پر ریکوڈک دنیا کی پانچویں سب سے بڑی تانبے کی کان بننے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔تانبہ ایک ایسی دھات ہے جو وائرنگ، موٹرز اور قابلِ تجدید توانائی کی ٹیکنالوجی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔اے ڈی بی نے کہا ہے کہ ’ریکوڈک اہم معدنیات کی سپلائی چین میں مدد دے گا، صاف توانائی کے حصول کی منتقلی کو آگے بڑھائے گا اور ڈیجیٹل جدت کو فروغ دے گا اس پیکج کو پاکستان کے لیے ایک ’گیم چینجر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ’ملک کو زیادہ مضبوط اور متنوع معیشت کی طرف لے جانے میں مدد دے گاکئی دہائیوں سے پاکستانی حکام ریکوڈک منصوبے کو ملک کی معاشی بحالی کی حکمتِ عملی کا سنگِ میل قرار دیتے رہے ہیں,
عالمی بینک کے مطابق منصوبہ صحت اخراجات میں کمی اور پانی سے پیدا بیماریوں میں کمی لائے گا، مقامی حکومتوں کی استعداد کار اور ریونیو بڑھانے میں بھی مدد ملے گی، منصوبہ شہروں کو سیلاب و خشک سالی کے مقابلے کیلئے زیادہ مضبوط بنائے گا، شہروں کی پائیدار ترقی اور ماحول دوستی کے اہداف میں بھی معاون ثابت ہوگا۔
بتایا گیاہے کہ منصوبے میں خواتین کیلئے نئی بھرتیاں اور فیصلہ سازی میں نمائندگی کو ترجیح دی جائے گی، خواتین کیلئے سکل ڈویلپمنٹ اور جینڈر کمپلینٹ ڈیسک قائم کئے جائیں گے، گھریلو سطح پر بہتر صفائی و صحت کے لیے آگاہی مہمات منصوبہ کا حصہ ہے۔
عالمی بینک کے مطابق نجی شعبے کی سرمایہ کاری پانی و صفائی کے شعبے میں متحرک کرنے کا ہدف ہے، منصوبہ پنجاب ڈویلپمنٹ پروگرام اور ستھرا پنجاب پروگرام کی معاونت کرے گا، صحت مند کمیونٹیز اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھ رہے ہیں۔
قبل ازیں عالمی بینک نے پاکستان کی موجودہ مالی سال کے لیے شرحِ نمو کی پیش گوئی میں 0.5 فیصد کمی کرتے ہوئے اسے 2.6 فیصد کر دیا ، عالمی بینک کا کہنا تھا کہ حالیہ تباہ کن سیلابوں کے باعث یہ کمی متوقع ہے، جس سے مہنگائی بھی بڑھ کر 7.2 فیصد تک جانے کا امکان ہے۔واشنگٹن میں قائم اس مالیاتی ادارے نے مشرقِ وسطیٰ، شمالی افریقہ، افغانستان اور پاکستان (ایم ای این اے اے پی) خطے کے لیے جاری اپنی اقتصادی رپورٹ میں کہا تھا کہ مالی سال 26-2025 کے لیے حقیقی جی ڈی پی کی شرحِ نمو تقریباً 2.6 فیصد رہنے کا امکان ہے، کیونکہ جاری تباہ کن سیلابوں نے معیشت کے اندازوں کو متاثر کیا ہے۔عالمی بینک نے اس سے قبل اپریل 2025 کی اپنی 2 سالہ رپورٹ میں پاکستان کی شرح نمو 3.1 فیصد بتائی تھی، پاکستان نے خود 4.2 فیصد کا ہدف رکھا تھا اور بعد ازاں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے نتیجے میں اسے 3.5 فیصد تک محدود کیا گیا تھا۔ابتدائی اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب میں زرعی پیداوار میں کم از کم 10 فیصد کمی متوقع ہے جو چاول، گنا، کپاس، گندم اور مکئی جیسی اہم فصلوں کو متاثر کرے گی۔مالی سال 27-2026 میں شرحِ نمو 3.4 فیصد تک بڑھنے کی توقع ہے جس کی وجہ زیادہ زرعی پیداوار، کم افراطِ زر اور شرحِ سود، صارفین و کاروباری طبقے کے اعتماد میں بحالی، اور نجی کھپت و سرمایہ کاری میں اضافہ ہو گا۔پاکستان، جو تاریخی طور پر پیچیدہ ڈھانچے کے ساتھ بلند درآمدی ٹیرف برقرار رکھتا آیا ہے، حال ہی میں منظور شدہ 5 سالہ اصلاحاتی منصوبے (2030-2025) کے تحت ٹیرف میں نصف کمی سے برآمدات اور ترقی کے حوالے سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مالی سال 25-2024 میں افراطِ زر سنگل ڈیجٹ (یعنی 10 فیصد سے کم) پر آگیا، کیونکہ خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار کم ہوئی، تاہم جاری سیلابوں کے باعث غذائی سپلائی چین میں خلل متوقع ہے، جو 2027 تک مہنگائی میں دوبارہ اضافہ کر سکتا ہے، عالمی برآمدات میں تقریباً 1.5 فیصد کمی کا بھی اندازہ ظاہر کیا گیا ہے۔پاکستان میں غربت کی شرح 2011 سے 2018 کے دوران 9.4 فیصد پوائنٹس کم ہوئی تھی، جو دستیاب تازہ ترین اندازہ ہے، تاہم 2020 کے بعد سے معاشی جھٹکوں اور قدرتی آفات کے امتزاج نے اس کمی کے رجحان کو روک دیا ہے، بلند شرحِ غربت اور بڑی آبادی کے باعث پاکستان خطے (ایم ای این اے اے پی) کے غریب ترین ممالک میں ایک بڑا حصہ رکھتا ہےرپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر خطے کی معیشت میں بہتری کی توقع ہے، جس کے تحت 2025 میں شرحِ نمو 2.8 فیصد اور 2026 میں 3.3 فیصد تک پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، تاہم عالمی غیر یقینی صورتِ حال، تجارتی پالیسی میں تبدیلیاں، اور جاری تنازعات و بے گھر ہونے کے واقعات خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کے ممالک سے توقع ہے کہ وہ تیل کی پیداوار میں رضاکارانہ کمی کے خاتمے اور غیر تیل صنعتوں کی ترقی سے فائدہ اٹھائیں گے، جب کہ تیل درآمد کرنے والے ممالک میں بھی نجی سرمایہ کاری، زراعت اور سیاحت کے فروغ سے بہتری کی توقع ہے، تاہم تیل برآمد کرنے والے ترقی پذیر ممالک تنازعات اور پیداوار میں کمی کے باعث سست روی کا شکار رہ سکتے ہیں , رپورٹ کے مطابق اگر خطے کے ممالک اپنی افرادی قوت میں خواتین کی مکمل شمولیت کو یقینی بنائیں تو لاکھوں زندگیاں بہتر بن سکتی ہیں، کیونکہ خواتین کی صلاحیتیں اور مہارتیں ابھی تک خاطر خواہ طور پر استعمال نہیں ہو رہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے کم شرح کے ساتھ خطے میں صرف 5 میں سے ایک خاتون ہی لیبر فورس کا حصہ ہے، حالانکہ خواتین کی تعلیم اور مہارتوں میں نمایاں بہتری آئی ہے۔خطے کی چیف ماہرِ اقتصادیات رابرٹا گاٹی نے کہا کہ خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت میں اضافہ زبردست اقتصادی فوائد لا سکتا ہے، خواتین کو روزگار سے روکنے والی رکاوٹیں ختم کرنے سے مصر، اردن اور پاکستان جیسے ممالک میں فی کس جی ڈی پی میں 20 سے 30 فیصد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق خطے کی کام کرنے کی عمر کی آبادی 2050 تک 22 کروڑ سے زائد بڑھنے کی توقع ہے، جو تقریباً 40 فیصد اضافہ ہے، یہ دنیا میں دوسرا سب سے بڑا اضافہ ہو گا، اسی وقت، زرخیزی کی شرح میں کمی اور بڑھتی عمر کی آبادی کے باعث خطہ ایک آبادیاتی بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان 3.5 فیصد کے ساتھ خطے میں سب سے زیادہ زرخیزی کی شرح والے ممالک میں سے ایک ہے، تاہم اس کی آبادیاتی منتقلی بس کچھ تاخیر کے ساتھ دیگر ممالک کی طرح ہی ہے۔
ایک نسل کے اندر اس کی زرخیزی کی شرح متبادل سطح سے نیچے آنے کی توقع ہے، رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان اب تک خواتین کے داخلے کی شرح میں خطے کے دیگر ممالک (جہاں تنازعات نہیں ہیں) کے مساوی سطح تک نہیں پہنچ سکا۔
گزشتہ 25 برسوں میں سعودی عرب، پاکستان، تیونس اور الجزائر جیسے ممالک نے خواتین کی لیبر فورس میں شمولیت کے حوالے سے نمایاں پیش رفت کی ہے، اگرچہ یہ شرح اب بھی ہم مرتبہ ممالک کے مقابلے میں کم ہے، خاص طور پر، سعودی عرب میں 2017 سے 2023 کے درمیان خواتین کی شرکت کی شرح تقریباً 14 فیصد پوائنٹس بڑھی، جب کہ پاکستان میں یہ شرح 2000 سے 2021 کے درمیان 8 فیصد پوائنٹس بڑھی۔ پاکستان میں کالج سے تعلیم یافتہ دو تہائی خواتین افرادی قوت سے باہر ہیں، حالانکہ ان کی پیشہ ورانہ خواہشات اور ملازمت کے لیے درخواست دینے کی شرح مردوں کے برابر ہے، خاص طور پر خواتین کی گریجویشن کے فوراً بعد شادی کے رشتوں کی پیشکشیں بڑھ جاتی ہیں، جس سے ملازمت کی تلاش کے لیے وقت محدود ہو جاتا ہے۔ مزید بتایا گیا کہ خاص طور پر کام کی جگہ اور تنخواہوں کے شعبے میں 2010 سے اب تک متحدہ عرب امارات (19 مثبت اصلاحات)، سعودی عرب (18)، بحرین (12)، اردن (10)، اور پاکستان (8) اس خطے کے نمایاں اصلاحاتی ممالک ہیں۔عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق نئے معیار کے تحت پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی غربت کا شکار ہے جب کہ پرانے پیمانے پر غربت کی شرح 39.8 فیصد تھی۔ نئے طریقہ کار کے مطابق 10 کروڑ 79 لاکھ پاکستانی غربت کا شکار ہیں، معیار بدلا ہے، لوگوں کی زندگیوں میں کوئی فوری تبدیلی نہیں آئی۔ عالمی بینک کی نئی جائزہ رپورٹ کے تحت پاکستان سمیت لوئر مڈل انکم ممالک میں یومیہ 4.20 ڈالر آمدن سے کم کمانے والے غربت کی لکیر سے نیچے ہیں، اس سے پہلے غربت کا پیمانہ 3.65 ڈالر یومیہ آمدن تھا۔ رپورٹ کے مطابق آمدنی کی اس حد میں پاکستان کی 44.7 فیصد آبادی آتی ہے۔ عالمی بینک نے پاکستان میں شدید غربت کی نئی حد 3 ڈالر فی کس یومیہ مقرر کی ہے، شدید غربت کی نئی حد میں پاکستان کی 16.5 فیصد آبادی آتی ہے۔ نئے پیمانے کے مطابق اپر مڈل انکم ممالک میں غربت جانچنے کے لیے آمدن 6.85 سے بڑھا کر 8.30 ڈالر یومیہ مقرر ہے، اس پیمانے کے مطابق پاکستان کی 88.4 فیصد آبادی اس حد سے نیچے ہے۔اقوام متحدہ کے ڈیولپمنٹ پروگرام ( یو این ڈی پی) کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد افراد شدید غربت میں مبتلا ہیں جن میں نصف سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق آکسفورڈ پاورٹی اینڈ ہیومن ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو ( او پی ایچ آئی) کے اشتراک سے جاری کردہ مقالے میں نشاندہی کی گئی ہے کہ جنگوں سے متاثرہ ممالک میں غربت کی شرح 3 گنا زیادہ ہے کیوں کہ 2023 میں جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ تنازعات دیکھنے میں آئے۔ یو این ڈی پی اور او پی ایچ آئی 2010 کے بعد سے اپنے سالانہ ملٹی ڈائمنشنل پاورٹی انڈیکس ( ایم پی آئی) جاری کرتے آئے ہیں، جن میں 6.3 ارب آبادی پر مشتمل 112 ممالک کے اعداد و شمار شامل کیے جاتے ہیں۔ پاورٹی انڈیکس مناسب رہائش کی کمی، نکاسی آب، بجلی، کھانا پکانے کا ایندھن، غذائیت اور اسکولوں کی حاضری جیسے اشیاریوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ورلڈ بینک نے کہا ہے کہ پچھلی دہائی کے دوران قدرتی آفات نے بھی ان ممالک کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے، 2011 سے 2023 کے درمیان ان ممالک میں قدرتی آفات سے نقصان کا اوسط تناسب جی ڈی پی کے 2 فیصد تھا، جو کم متوسط آمدنی والے ممالک میں اوسط سے پانچ گنا زیادہ ہے اور سرمایہ کاری کی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ یہ معیشتیں جن میں غیر رسمی شعبوں کی اکثریت ٹیکس نظام سے باہر کام کر رہی ہے، انہیں اپنی مدد کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، اس مقصد کے لیے ان معیشتوں کو ٹیکس دہندگان کے اندراج اور ٹیکس کے نظام کو آسان بنانے کے علاوہ عوامی اخراجات کی صلاحیت کو بہتر بنا کر ٹیکس وصولیوں میں اضافہ کرنا ہوگا۔

