اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) کسان پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون….؟
Share
اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) پاکستان ایک زرعی معیشت ہے اور گندم کی فصل کلیدی اہمیت کی حامل ہے جبکہ گندم بنیادی خوراک اور ملک کے کسانوں کے لیے آمدنی کا بڑا ذریعہ بھی ہے حکومت کسانوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے۔ اور کسانوں کی فلاح و بہتری کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں کیونکہ کسان پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قومی کسان ڈے پاکستان میں کسانوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا دن ہے، جو عموماً 18 دسمبر کو منایا جاتا ہے اور یہ دن کسانوں کی ملک کی ترقی اور خوراک کی حفاظت میں اہم کردار کو اجاگر کرتا ہے، جس میں وفاقی حکومت کی جانب سے اسے سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے اور کسانوں کی خدمات کو سراہا جاتا ہے. اس دن کو منانے کا مقصد ملک کی معیشت اور خوراک کی سلامتی میں کسانوں کی خدمات کو تسلیم کرنا اور انہیں خراجِ عقیدت پیش کرناہے،کسان ڈے ایک علامتی اقدام سے بڑھ کر ایک مضبوط قومی تحریک بن چکا ہے اور وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہے. یاد رہے کہ کسان وہ شخص ہے جو مٹی کو سونا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی محنت سے بنجر زمین کو سرسبز بناتا ہے.زراعت انسانی تہذیب کی ترقی میں ایک اہم پیش رفت تھی، جس نے خوراک کی فراہمی کے ذریعے ثقافت کی ترقی کو فروغ دیا جائے یاد رہےکہ کسان پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے, زراعت کا پاکستان کی معیشت میں ایک اہم کردار ہے، زراعت کا 23 فیصد حصہ ملک کی جی ڈی پی میں ہے, اس کے علاوہ، زراعت سے متعلقہ مصنوعات کا ملکی آمدنی میں حجم 80 فیصد تک ہے, زراعت پاکستان کی تقریباً 42.3 فیصد آبادی کا روزگار بھی فراہم کرتی ہے
توقع ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کے وژن کے مطابق زرعی پیداوار کو دوگنا کرنے کے لیے حکومت اضافی میل تک جائے گی وفاقی حکومت نے گندم پالیسی 2025–26 کی منظوری دے دی ہے اور گندم کی خریداری کی قیمت 40 کلوگرام فی 3,500 روپے مقرر کر دی گئی ہے تاکہ کاشتکاروں کو منصفانہ منافع فراہم کیا جا سکے، قومی خوراک کی حفاظت یقینی بنائی جا سکے اور اسٹریٹجک ذخائر برقرار رکھے جا سکیں۔ سرکاری بیان کے مطابق، وفاقی اور صوبائی حکومتیں 2025–26 کے فصل سے تقریباً 6.2 ملین ٹن گندم خریدیں گی تاکہ اسٹریٹجک ذخائر قائم کیے جا سکیں۔ خریداری مقررہ قیمت 40 کلوگرام فی 3,500 روپے پر کی جائے گی، جس کا مقصد کاشتکاروں کو منصفانہ معاوضہ فراہم کرنا اور مارکیٹ کے استحکام کو برقرار رکھنا ہے۔ملک بھر میں گندم کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے صوبوں کے درمیان گندم کی نقل و حمل پر تمام پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔ گندم پالیسی کے نفاذ کی نگرانی کے لیے ایک نیشنل ویٹ اوور سائیٹ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس کی صدارت وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ کریں گے اور اس میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہیں۔ یہ کمیٹی ہفتہ وار اجلاس کرے گی اور براہ راست وزیر اعظم کو رپورٹ دے گی۔اس حوالے سے وزیرِ اعظم کا کہناتھا کہ کہ گندم کسانوں کے لیے آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، کسانوں کی فلاح و بہتری کے لیے ہر ممکن کوششیں کی جا رہی ہیں،اس کے علاوہ حکومت نے گندم کی امدادی قیمت پر آئی ایم ایف کے تحفظات دور کر دیئے، آئی ایم ایف نے گندم پالیسی میں کم از کم امدادی قیمت فکس کرنے پر بھی اعتراض اٹھا یاتھا ،گندم پالیسی کی منظوری کے بعد آئی ایم ایف نے وزارت غذائی تحفظ کو خط لکھ کرآگاہ کیاتھا۔آئی ایم ایف نے گندم پالیسی کے خدوخال بھی وزارت غذائی تحفظ سے طلب کئے، آئی ایم ایف کو جواب میں کہا گیا کہ امدادی قیمت فکس نہیں کی گئی،سمجھنے میں غلطی ہوئی۔کم ازکم امدادی قیمت کے بجائے انڈیکیٹو قیمت کا تعین کیا گیا ہے، امریکا کی انٹرنیشنل ہارڈ ریڈ گندم کی قیمت کو دیکھتے ہوئے انڈیکیٹو پرائس نکالی گئی۔ ذرائع وزارت غذائی تحفظ کا کہناتھا کہ آئی ایم ایف نے اعتراض اٹھایا کہ شائد امدادی قیمت فکس ہوئی ہے، آئی ایم ایف کےاعتراضات وزیر اعظم ہاؤس کےساتھ بھی شیئرکئے گئے، امریکا کی انٹرنیشنل ہارڈ ریڈ گندم کی قیمت 238 ڈالر فی ٹن ہے، انٹرنیشنل ہارڈ ریڈ گندم کی قیمت پر کراچی میں لینڈنگ اخراجات شامل کر کے اندازہ لگایا گیا، پھرکراچی سے درآمد شدہ گندم ملتان لائے جانے کے اخراجات بھی شامل کئے گئے، درآمد شدہ گندم ملتان لانے پر اخراجات نکال کر 3500 روپے فی من قیمت کا اندازہ لگایا گیا پاکستان ایک زرعی معیشت اور گندم کی فصل کلیدی اہمیت کی حامل ہے، گندم پاکستان کے لوگوں کی بنیادی خوراک ہے۔ حکومت کسانوں کو درپیش مشکلات سے بخوبی آگاہ ہے، کسان پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں، گندم پالیسی کے لیے تمام صوبائی حکومتوں، اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی، کسان تنظیموں، صنعتکاروں اور کاشتکار برادری کے ساتھ بھی تفصیلی مشاورت کی گئی، مشاورت کی بنیاد پر حکومت قومی گندم پالیسی 26-2025ء کا اعلان کر رہی ہے۔قومی گندم پالیسی کا مقصد عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے کسانوں کے منافع کو یقینی بنانا ہے، اتفاقِ رائے پر مبنی پالیسی تیار کرنے میں صوبائی حکومتوں کا تعاون زرعی ترقی کو فروغ دے گا، کسانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو گا، پالیسی پاکستان کے عوام کے لیے غذائی تحفظ کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اعلامیے کے مطابق نئی گندم پالیسی کے تحت کسانوں کو مناسب قیمت دی جائے گی، حکومت مستحکم ذخائر اور کسانوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اسٹریٹجک اسٹاک خریدے گی، وفاقی اور صوبائی حکومتیں تقریباً 6.2 ملین ٹن کے اسٹریٹجک ذخائر حاصل کریں گی، خریداری 3500 روپے فی من، گندم کی بین الاقوامی درآمدی قیمت کے مطابق کی جائے گی، یہ اقدام مارکیٹ کی مسابقت کو برقرار رکھتے ہوئے کسانوں کو منصفانہ قیمت و منافع کو یقینی بنائے گا بتایا گیاہے کہ گندم کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے بین الصوبائی نقل و حرکت پر پابندی نہیں ہو گی، وفاقی وزیر گندم کی نگرانی کی ایک قومی کمیٹی کی صدارت کریں گے، کمیٹی میں تمام صوبوں کے نمائندے شامل ہوں گے، کمیٹی پالیسی اقدامات پر عمل درآمد اور ہم آہنگی کی نگرانی کرے گی، کمیٹی ہفتہ وار اجلاس کرے گی اور براہِ راست وزیرِ اعظم کو رپورٹ کرے گی۔ زرعی شعبے کی کارکردگی اور جاری اصلاحات پر قائم ٹاسک فورس نے وزیرِ اعظم کو بریفنگ د ی تھی وزیرِ اعظم نے کہاتھا کہ زرعی شعبے کی پیدوار میں بہتری، ویلیو ایڈیشن اور زرعی مصنوعات کی برآمدات میں اضافہ حکومت کی اولین ترجیح ہے. جدید زرعی مشینری، معیاری بیج، فصلوں کی جغرافیائی منصوبہ بندی اور کسانوں کو آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کا طویل و قلیل مدتی جامع لائحہ عمل پیش کیا جائے. وزیرِاعظم نے ہدایت کی تھی کہ زرعی اجناس کی فی ایکڑ پیداوار میں اضافے کیلئے زرعی شعبے کے تحقیقی مراکز کو مزید فعال ,زرعی تحقیقی مراکز میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت جدید تحقیق کو یقینی بنایا جائے.
وزیرِ اعظم کا کہناتھا کہ زراعت میں مصنوعی ذہانت اور جدید ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کیلئے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہرین کی خدمات سے استفادہ حاصل,زرعی اجناس کی ویلیو ایڈیشن سے برآمدی اشیاء کی تیاری کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کی زرعی صنعت کی ترقی کے حوالے سے اقدامات کا لائحہ عمل بھی پیش کیا جائے. منافع بخش فصلوں کی کاشت اور پاکستان کو غذائی تحفظ کے حوالے سے خود کفیل بنانے کیلئے کسانوں کو ہر قسم کی راہنمائی فراہم کرنے کے اقدامات کئے جائیں. وزیرِ اعظم نے کہا کہ کسانوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تجاویز کیلئے مشاورتی عمل کو یقینی, زرعی شعبے کی ترقی کیلئے صوبائی حکومتوں سے روابط و تعاون مزید مربوط بنایا جائے. موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچاؤ کیلئے کلائیمیٹ رزسٹینٹ بیج اور زراعت کے جدید طریقہ کار اپنانے میں کسانوں کی معاونت کی جائے بارشوں اور دیگر موسمیاتی تبدیلیوں کی پیش نظر نئے موزوں علاقوں بالخصوص سندھ اور بلوچستان میں کپاس کی کاشتکاری کیلئے صوبائی حکومت سے تفصیلی مشاورت کے بعد جامع منصوبہ بندی, نباتاتی ایندھن کو ملک کے انرجی مکس میں شامل کرنے کیلئے تحقیق اور منصوبہ بندی کی جائے اجلاس کو ربیع و خریف کی بڑی فصلوں کی گزشتہ برس پیداوار، کسانوں کو درپیش مسائل، آئندہ کا لائحہ عمل اور تجاویز پیش کی گئیں. اجلاس کو حکومتی اصلاحات کے نفاذ پر پیش رفت اور زراعت پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے بارے بھی آگاہ کیا گیا.وزیراعظم محمد شہباز شریف کا گریجویٹس کو زرعی تربیت کے لیے چین بھیجنے کی تقریب سے خطاب میں کہناتھا کہ زرعی گریجویٹس کو چین بھیجنے کا منصوبہ صرف زراعت تک ہی محدود نہیں، بلکہ اس قسم کے منصوبوں کا مقصد پاکستان کے نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنا ہے تاکہ ایک ایسا ملک بنایا جا سکے جسے قرضوں سے نجات ملے اور خودمختار ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو وزیرِاعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت زرعی شعبے کی کارکردگی اور جاری اصلاحات پر جائزہ اجلاس کو ربیع اور خریف جیسی بڑی فصلوں کی گزشتہ برس پیداوار، کسانوں کو درپیش مسائل، آئندہ کا لائحہ عمل اور تجاویز پیش کی گئیں. وزیرِ اعظم نے زرعی شعبے کی مزید اصلاحات کیلئے جامع لائحہ عمل جلد پیش کرنے کی ہدایت کی
پاکستان کی زراعت کا دارومدار فصلوں، مویشیوں اور مرغیوں وغیرہ کی پیداوار پر ہے, پاکستان دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جن کے پاس وسیع زرعی زمین ہے۔ پاکستان کی زراعت کو جدید پیداوری طریقوں پر استوار کر کے نہ صرف زراعت کے شعبے میں بہتری لائی جا سکتی ہے بلکہ معیشت کے اس اہم ستون کا درست استعمال کر کے اربوں ڈالر کی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے ,
کسانوں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو زرعی قرضے آسان شرائط پر مہیا کرنے، سستی کھاد اور اعلیٰ معیار کے بیج فراہم کرنے کی ضرورت ہے, اس کے علاوہ، کسانوں کو اپنی فصلوں کی منصفانہ قیمت دلانے کے لیے پالیسی سازی بھی ضروری ہےوزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے ملکی صنعتی پیداوار کو بڑھانے کے لیے پاور ڈویژن کو جامع اور مؤثر پالیسی پر مبنی سفارشات دینے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے صنعت اور زراعت کے لیے پاور ڈویژن کے اصلاحاتی پیکج پر جائزہ اجلاس میں کہا کہ تمام ادارے صنعتکاروں اور سرمایہ داروں کو سہولت پہنچانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں۔ وزیر اعظم نے ہدایت جاری کرتے ہوئے مزید کہا کہ زراعت اور صنعت کو ہر ممکن سہولت پہنچانا حکومت کی اولین ترجیح ہے، بجلی کے زیادہ سے زیادہ مثبت استعمال کو یقینی بنانے کے لیے پالیسی پر کام کیا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بجلی کی پیداوار کا بہترین استعمال صنعتی مصنوعات اور زرعی پیداوار بڑھا کر کیا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جب ہم نے حکومت سنبھالی تو ملکی معیشت زبوں حالی کا شکار اور نازک صورتحال سے دوچار تھی، پالیسی ریٹ معیشت کو مفلوج کر چکا تھا،مہنگائی بے قابو اورملک میں کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار تھیں،بیرون ممالک سے سرمایہ کاری رک گئی تھی ، ملک مکمل طور پر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر کھڑا تھا۔انہوں نے کہاکہ ہماری حکومت نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ، بہتر حکمت عملی سے چیلنجز کا مقابلہ کیااور ایک پوری ٹیم ورک کے ذریعے دن رات کام کر کے ملک کو اس دلدل سے نکالا آج الحمد اللہ پاکستان معاشی بحران سے نکل چکا ہے،معاشی اشاریے بہت بہترہو چکے ہیں ،غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا اور ملک میں سرمایہ کاری میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ،پشاور سے لے کر کراچی تک معاشی سرگرمیاں جاری ہیں،غیر ملکی ادارے بھی ہماری مثبت پالیسوں کے معترف ہیں ،بہتر حکمت عملی کی بدولت آئی ایم ایف نے 1.2 بلین ڈالر کی قسط کی منظوری دے دی ہے ،جس سے آنے والے دنوں میں معاشی حالات مزید بہتر ہوں گے ۔ نوجوان ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں جنہیں برسرروز گار کرنے کے لیے فنی وپیشہ ورانہ تربیت کی فراہمی کے لیے تمام وسائل بروئے کا ر لائے جارہے اورآسان کاروبار سکیم سے ہزاروں نوجوان مستفید ہو رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس فنی اور پیشہ ورانہ تربیت کی فراہمی سے نوجوانوں کو نہ صرف ملک بلکہ بیرون ممالک میں بھی روزگار کے مواقع میسر آئیں گے،جس سے ملک سے نہ صرف بیروزگاری کا خاتمہ ممکن ہو گا بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں سے مل کر ادارہ جاتی فرہم ورک کو بہتر کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات کر رہی ہے ،تعلیم ،زراعت ،صنعت ،صحت،سوشل سیکٹر سمیت دیگر شعبوں میں اصلاحات کے بہتر نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ عوام کے مسائل کا ادراک ہے جس کے لیے دن رات کوشاں ہیں ،ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر چکے ،مزید ٹارگٹس حاصل کرنے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں،معیشت کی پائیدار ترقی کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے،سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات،برطانیہ ،امریکہ سمیت دیگر دیگر ممالک سمیت مختلف سیکٹرز میں بہتری کے لیے بھرپورتعاون فراہم کر رہے ہیں،جلد ملک کو معاشی قوت بنائیں گے۔
قومی کسان ڈے کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نےکہا ہے کہ کسان پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہیں، جن کی انتھک محنت اور قربانیوں کے بغیر قومی غذائی تحفظ، زرعی خودکفالت اور دیہی ترقی کا تصور ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسان دن رات محنت کر کے قوم کے لیے خوراک مہیا کرتے ہیں اور ملک کے معاشی استحکام، برآمدات اور دیہی روزگار کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں لاکھوں خاندانوں کا ذریعۂ معاش زراعت سے وابستہ ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ کسانوں کو جدید زرعی سہولیات، معیاری بیج، کھاد کی بروقت فراہمی، پانی کی منصفانہ تقسیم، مؤثر زرعی توسیعی خدمات اور جدید تحقیق تک رسائی فراہم کرنا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے تاکہ زرعی پیداوار میں اضافہ، لاگت میں کمی اور کسانوں کی آمدن میں بہتری لائی جا سکے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غیر متوقع بارشیں، سیلاب، خشک سالی اور بڑھتے ہوئے زرعی اخراجات کسانوں کے لیے سنگین چیلنجز بن چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے جامع اور مؤثر پالیسی سازی، فصل بیمہ کے نظام کا فروغ، کسان دوست قرضہ اسکیمیں، قابلِ استطاعت توانائی، اور جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کو ناگزیر بنایا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمان کسانوں کے مسائل کے حل، زرعی شعبے کی پائیدار ترقی اور دیہی خوشحالی کے لیے قانون سازی، نگرانی اور مؤثر پالیسی اقدامات کے ذریعے اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ کسانوں کے حقوق کے تحفظ، منڈیوں تک بہتر رسائی اور زرعی ویلیو چین کی مضبوطی کے لیے ہر ممکن اقدام جاری رکھا جائے گا۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ کسان کی خوشحالی دراصل قومی خوشحالی کی ضمانت ہے، اور کسان کو بااختیار بنا کر ہی پاکستان کو ایک مضبوط، خودکفیل اور خوشحال ریاست بنایا جا سکتا ہے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی سید غلام مصطفیٰ شاہ نے قومی کسان ڈے کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ کسانوں کی فلاح و بہبود، زرعی ترقی اور دیہی معیشت کا استحکام پاکستان کی مجموعی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مربوط حکمتِ عملی، جدید ٹیکنالوجی کے فروغ اور کسان دوست اقدامات پر عمل درآمد ضروری ہے۔ ڈپٹی اسپیکر نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پارلیمان کسانوں کے حقوق کے تحفظ اور زرعی شعبے کی مضبوطی کے لیے اپنا کردار پوری سنجیدگی سے جاری رکھے گی دوسری طرف وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق رانا تنویر حسین کی زیرِ صدارت عبوری قومی گندم پالیسی 2026 کے تحت قائم کی گئی قومی نگران کمیٹی برائے گندم کا پہلا اجلاس وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق میں منعقد ہوا جس میں صوبائی اور علاقائی سیکرٹریز برائے خوراک و زراعت کے علاوہ متعلقہ محکموں کے سینئر افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں عبوری قومی گندم پالیسی 2025–26 کے مقاصد اور اس کے نفاذ کے فریم ورک پر توجہ مرکوز رکھی گئی۔اجلاس کے دوران وفاقی وزیر نے ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے میں گندم کی سٹریٹجک اہمیت کو اجاگر کیا اور قومی غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے گندم کی کاشت میں اضافہ پر زور دیاگیا پالیسی کے مقاصد کے مطابق آئندہ آنے والی گندم کی فصل کی خریداری کے طریقہ کار پر تفصیلی غور کیا گیاعبوری قومی گندم پالیسی 2025–26 کا مقصد ریاست کے زیرِ اثر خریداری کے نظام سے مارکیٹ پر مبنی گندم کی معیشت کی طرف منتقلی، مارکیٹ کے مطابق اشاریاتی قیمتوں کے ذریعے قیمتوں میں استحکام کو یقینی بنانا اور غذائی تحفظ کے تحفظ کے لئے مناسب سٹریٹجک ذخائر کی تعمیر اور انتظام کرنا ہے۔اس پالیسی کا مقصد گندم کی خریداری ، ذخیرہ اندوزی اور تجارت میں نجی شعبے کی شمولیت کو فروغ دینا، گندم کے انتظام سے منسلک مالی اور نیم مالی بوجھ میں کمی لانا اور پاکستان کی قومی گندم منڈی میں آزاد اور مسابقتی تجارت کو فروغ دینا بھی ہے۔ مزید برآں یہ پالیسی صوبوں کو اپنی مقامی ضروریات کے مطابق سماجی تحفظ کے نظام کے ڈیزائن میں لچک فراہم کرتی ہے۔وفاقی وزیر نے صوبائی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں عبوری قومی گندم پالیسی 2025–26 پر مکمل عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ گندم کے کاشتکاروں اور آٹے کے صارفین کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ انہوں نے گندم کی ویلیو چین میں نجی شعبے کی شمولیت کی اہمیت پر زور دیا تاکہ نئے کاروباری مواقع پیدا ہوں اور خصوصاً نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع میسر آئیں۔ وفاقی وزیر نے مزید زور دیا کہ تمام صوبائی حکومتیں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپنی آبادی کی ضروریات کے مطابق سٹریٹجک گندم کے ذخائر برقرار رکھیں۔ وفاقی، صوبائی اور علاقائی سٹیک ہولڈرز نے کسانوں، صارفین اور قومی معیشت کے مفاد میں عبوری قومی گندم پالیسی 2025–26 کے مؤثر نفاذ کے لئے باہمی تعاون سے کام کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دوسری طرف پشاور میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی زیر صدارت محکمہ خوراک کا اجلاس میں صوبے میں اشیائے خوردونوش کی دستیابی اور معیار کو یقینی بنانے کے اقدامات پر غور کیا گیااجلاس میں بتایا گیا کہ صوبے کی سالانہ گندم کی ضرورت 53 لاکھ میٹرک ٹن ہے، جس میں 14 لاکھ میٹرک ٹن مقامی پیداوار سے اور 38 لاکھ میٹرک ٹن دیگر صوبوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ گندم کی سٹوریج کیپسٹی بڑھانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے فوڈ بزنسز کی نگرانی کے تحت 38,710 بزنسز کو لائسنس جاری کیے گئے اور 1,243 نئی فوڈ پراڈکٹس رجسٹر کی گئیں۔ موبائل اور سنٹرل لیبز کے ذریعے فوڈ سیمپل ٹیسٹنگ میں 12,213 اشیاء معیار کے مطابق پائی گئیں جبکہ 4,812 غیر معیاری قرار دی گئیں۔ اگر چاول، گندم اور مکئی غائب ہو جائیں تو کیا ہو گا؟موسمیاتی تبدیلیوں سے رواں سیزن گندم کی فصل پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، گزشتہ دو ماہ سے بارش نہ ہونے سے روالپنڈی، اٹک، جہلم، چکوال کے علاقوں میں گندم کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے, گزشتہ دو ماہ سے خطہ پوٹھوار میں بارش نہ ہونے سے گندم کی فصل کو نقصان ہو سکتا ہے، ملک بھر کے ایک تہائی حصہ کی گندم بارانی علاقوں میں کاشت ہوتی ہے۔ ذرائع وزارت قومی غذائی تحفظ کے مطابق ان علاقوں میں نہری نظام نہ ہونے کی وجہ سے بارش کے پانی کی اشد ضرورت ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ کا کہنا ہے کہ بارانی علاقوں میں بارش نہ ہونے سے ملک بھر میں گندم کی فصل پر منفی اثرات پڑنے کا خدشہ ہے، اگر ملک بھر میں گندم کی پیداوار کا ٹارگٹ پورا نہ ہوا تو مستقبل میں گندم درآمد کرنا پڑے گی۔ اگر آنے والے دنوں میں بارش نہ ہوئی تو گندم کی فصل پر منفی اثرات بڑھ سکتے ہیں۔ایک نئی تحقیق کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیاں پاکستان سمیت کئی ممالک میں فصلوں کی پیداوار نصف کر سکتی ہیں کیا پاکستان غذائی قلت اور معاشی بحران کی دہلیز پر کھڑا ہے؟نیچر فوڈ سائنس جرنل میں اپریل 2025 کو شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق میں خبردار کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث کم عرض بلد والے علاقوں میں چار اہم غذائی فصلوں چاول، مکئی، گندم، اور سویا بین کی پیداوار نصف تک گر سکتی ہے۔ ان علاقوں میں پاکستان سمیت متعدد ممالک شامل ہیں، جہاں غذائی تحفظ اور معاشی عدم استحکام کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں دنیا بھر میں ماحول، معیشت اور روزمرہ کی زندگی کے لیے ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہیں، جن میں سب سے نمایاں خطرہ غذائی تحفظ کا ہے۔ فن لینڈ کی یونیورسٹی آف آلٹو کے سائنسدانوں کی اس تحقیق میں 30 اہم غذائی فصلوں پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ تحقیق کے مطابق کم عرض بلد والے علاقے، جو اپنے زرعی تنوع کی وجہ سے مشہور ہیں، اب گلوبل وارمنگ، غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں اور قدرتی آفات کی بڑھتی ہوئی شدت کی وجہ سے اپنی پیداواری صلاحیت کھو رہے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر عالمی درجہ حرارت میں اضافہ جاری رہا تو ان علاقوں میں 30 اہم فصلوں کی پیداوار نصف تک کم ہو سکتی ہے، جس سے شدید غذائی قلت کا سامنا ہو گا۔ تحقیق کے مطابق عالمی درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے سے غذائی فصلوں کے تنوع میں نمایاں کمی آئی ہے۔ کئی خطوں میں مقامی فصلوں کے لیے موزوں درجہ حرارت اب بڑھ چکا ہے، جس کی وجہ سے صدیوں سے کاشت کی جانے والی اجناس اگانا مشکل ہو گیا ہےموسمیاتی تبدیلیوں کے باعث زرعی پیداوار میں کمی کے معاشی اثرات بھی سنگین ہیں۔ راولپنڈی میں ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی کے ریسرچ سکالر محمد عظیم کے مطابق بدلتی آب و ہوا اور ایکو سسٹم میں تبدیلیوں نے زرعی مارکیٹوں کی ترجیحات کو بدل دیا ہے۔ ریسرچ سکالر نے بتایا کہ غذائی فصلوں کے تنوع والے ممالک میں کسانوں کو تربیت دی جا رہی ہے کہ وہ بڑھتے درجہ حرارت کے مطابق نئی فصلیں اگائیں اور غیر موزوں فصلوں کو ترک کریں۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ یہ عمل اتنا سادہ نہیں، کیونکہ ایسی تبدیلیوں کے لیے وسائل، تحقیق اور پالیسی سپورٹ کی ضرورت ہےموسموں کی غیر یقینی صورتحال نے کاشتکاری کو مشکل بنا دیا ہے پہلے سال میں چار موسم ہوتے تھے اور کسان اسی کے مطابق فصلیں بویا اور کاٹا کرتے تھے۔ اب موسموں کا اپنا ہی مزاج ہے گندم کو موسم سرما کے اوائل میں بویا اور اپریل سے پہلے کاٹا جاتا تھا لیکن اب مارچ سے ہی گرمی شروع ہو جاتی ہے۔ غیر متوقع آندھی، طوفان اور ژالہ باری نے گندم کی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا ہے۔مکئی کو مئی میں مون سون کے آغاز پر بویا اور اکتوبر میں کاٹا جاتا ہے لیکن اب مون سون جولائی سے شروع ہونے لگا ہے، جس سے کسان پریشان ہیں کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کی کوئی خاص تربیت نہیں دی جا رہی، جس کی وجہ سے بہت سے نوجوان زراعت چھوڑ کر شہروں کی طرف جا رہے ہیں, زراعت دنیا بھر میں اربوں افراد کی روزی کا ذریعہ ہے اور ترقی پذیر ممالک میں یہ معاشی ترقی اور تنوع بھی فراہم کرتی ہے۔ تاہم بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارش کے بدلتے رجحانات اور شدید موسمی حالات کے باعث عالمی غذائی نظام تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں ترقی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
پاکستان کی برآمدی زرعی فصلیں زر مبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے میں کلیدی کر دار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان نے سن 2025 کی پہلی ششماہی میں 3.6 ملین ٹن باسمتی چاول برآمد کیے، جن کی کل مالیت 1.87 ارب روپے تھی۔ تاہم بدلتے موسمی پیٹرن اور سن 2022 کے تباہ کن سیلاب نے چاول کی پیداوار کو شدید نقصان پہنچایا، جس سے 60 لاکھ ٹن فصل تباہ ہوئی۔
اسی طرح کپاس کی پیداوار گزشتہ دہائی میں آدھی رہ گئی ہے، جو پاکستان کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے بڑا دھچکا ہے۔ کسانوں کو یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ کون سے موسم میں فصل بوئی اور کٹائی کی جائے۔ کلائیمیٹ، انرجی اینڈ واٹر ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کے مطابق بارشوں کی کمی سے بارانی فصلوں کی پیداوار میں چھ سے 15 فیصد کمی آئی ہے۔ گندم، جو پاکستان کی سب سے اہم فصل ہے، گندم کی پیداوار میں 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ یہ کمی صرف بارشوں کی کمی سے ہے، جبکہ ہیٹ ویوز اور سیلابوں سے ہونے والا نقصان اس سے الگ ہے فصلوں کی کم پیداوار سے پاکستانی منڈیوں میں اجناس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ موجودہ سیزن میں 40 کلوگرام گندم کے آٹے کی قیمت 4,000 روپے تک پہنچ گئی ، جو غریب طبقے کی پہنچ سے باہر ہے۔ پاکستان سمیت جنوبی ایشیا زراعت میں ایک عبوری مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ کسانوں کو جدید طریقے سکھانا اور زرعی پالیسیوں کو تحقیق کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو غذائی قلت اور معاشی بحران سے بچنا مشکل ہو گا۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی دنیا بھر میں فصلوں کی پیداوار کو شدید متاثر کر سکتی ہے جس سے غربت اور ماحولیاتی خطرات کے مقابل کمزور ممالک میں غذائی تحفظ اور انسانی ترقی کو خطرات لاحق ہیں,یہ بات ‘یو این ڈی پی’ کی تازہ ترین جائزہ رپورٹ میں بتائی گئی ہے جس میں زیرجائزہ رہنے والے 176 ممالک میں سے 161 میں اس صدی کے اختتام تک بنیادی فصلوں کی پیداوار میں کمی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔جائزے کے مطابق انسانی ترقی کے اشاریے میں نچلی سطح پر موجود ممالک بالخصوص ذیلی صحارا افریقہ اور ایشیا کے بعض حصوں میں اس صدی کے اختتام تک شدید زرعی نقصانات ہو سکتے ہیں جہاں فصلوں کی اوسط پیداوار میں 25 سے 30 فیصد تک کمی متوقع ہے ان خطوں میں زیادہ تر کسان بارانی زراعت پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے پاس موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے مالی یا تکنیکی وسائل محدود ہیں۔ نتیجتاً موسمیاتی تبدیلی کے اثرات نہ صرف ممالک کے درمیان بلکہ ان کے اندر موجود عدم مساوات کو بھی مزید گہرا کر سکتے ہیں۔ بڑی زرعی معیشتیں بھی ان اثرات سے محفوظ نہیں رہیں گی۔ اگر درجہ حرارت میں شدید اضافہ ہوا تو گندم اور سویابین کی پیداوار میں 40 فیصد تک کمی آ سکتی ہے جس کے اثرات عالمی غذائی قیمتوں، تجارتی نظام اور سیاسی استحکام تک کئی جگہوں پر محسوس کیے جائیں گے۔ نئی پیش گوئیوں کے مطابق، موسمیاتی عوامل میں تبدیلی مکئی، چاول، گندم، سویابین، کساوا اور جوار کی پیداوار کو متاثر کر سکتی ہے۔ 100 سے زیادہ ممالک کے 19,000 سے زیادہ ذیلی علاقوں کے جائزے سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے سے زرعی پیداوار اور انسانی بہبود قریبی مدت (2020 تا 2039)، وسط صدی (2040 تا 2059) اور صدی کے اختتام تک (2080 تا 2099) بہت سے ممالک کو متاثر کرےگی۔ اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ عالمی اخراجات کو معتدل سطح پر لایا جائے تو اکیسویں صدی کے اختتام تک فصلوں کا متوقع نقصان بہت کم ہو گا۔ یہ رجحان امیر اور غریب دونوں ممالک میں یکساں طور پر دیکھا گیا ہے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آج کیے گئے فیصلہ کن موسمیاتی اقدامات کل کے تباہ کن نقصانات کو روک سکتے ہیں۔ معلومات سے واضح ہوتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی صرف ماحولیاتی ہنگامی صورتحال نہیں بلکہ انسانی ترقی کا بحران بھی ہے۔ زرعی پیداوار میں مسلسل کمی بھوک، غربت اور معاشی عدم استحکام کو بڑھا سکتی ہے اور ان لاکھوں افراد کے لیے مواقع ختم کر سکتی ہے جو اپنی روزی کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں۔ یہ نتائج ‘کاپ کے اعلامیے کی فوری اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں جو بھوک، غربت اور انسانی مرکزیت پر مبنی موسمیاتی اقدام سے متعلق ہے۔ اعلامیہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ خوراک کے نظام اور مساوات کو عالمی موسمیاتی حکمت عملی کے مرکز میں رکھا جائے واضح رہے کہ حسب ضرورت، غذائیت بخش اور قابل بھروسہ خوراک تک رسائی کا تحفظ نہ صرف بقا کے لیے ضروری ہے بلکہ انسانی وقار کے تحفظ اور پائیدار ترقی کے فروغ کے لیے بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ادارہ مسلسل مطالبہ کر رہا ہے کہ موسمیاتی موافقت، پائیدار نظام اور مساوی اقدامات میں سرمایہ کاری کو مضبوط کیا جائے تاکہ تیزی سے بدلتے عالمی حالات میں کوئی بھی طبقہ پیچھے نہ رہ جائےپاکستان کے اقتصادی سروے کے مطابق، مالی سال کے دوران زراعت کے شعبے نے 6.25 فیصد کی مضبوط نمو ظاہر کی، تمام بڑی فصلوں نے توقع سے زیادہ پیداوار کی کسان برادری کو زیادہ قیمت والے ان پٹ مواد کی عدم دستیابی اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ وہ اگلے سال کے بارے میں پرامید ہیں، کسان کی قوت خرید ہر وقت کم ہے۔ اس کے پیچھے بہت سے عوامل کار فرما ہیں۔ وہ اپنی اگلی فصل اگانے کے لیے مالیات کا انتظام کیسے کریں اس سال، زراعت کی ترقی 6 فیصد سے زیادہ تھی، پاکستان میں کسان لابی مضبوط نہیں اور پارلیمنٹ میں موجود 60% سے زیادہ عوامی نمائندے اس بات سے پریشان نہیں کہ کسانوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ اگر کسانوں کے مسائل حل نہ کیے گئے تو آنے والے سالوں میں پاکستان کو غذائی تحفظ کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے پاکستان کو غذائی تحفظ کے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ملک کی بڑی آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ گندم، جو کہ پاکستان کی بنیادی خوراک ہے، کی قیمتوں میں اضافہ اور پیداوار میں کمی کے باعث یہ مسئلہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں، پانی کی کمی، اور زرعی پالیسیوں کی ناکامی نے بھی غذائی تحفظ کو متاثر کیا ہے پاکستان میں غذائی تحفظ کے مسائل کی وجہ سے 12.5 ملین سے زائد لوگ غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ گندم کی پیداوار میں 15% تک کمی واقع ہوئی ہے۔ پاکستان دنیا میں گندم پیدا کرنے والا 7 واں بڑا ملک ہے، لیکن اوسط پیداوار 3 میٹرک ٹن فی ہیکٹر ہے، جو کہ نیوزی لینڈ کی اوسط پیداوار 10 میٹرک ٹن فی ہیکٹر سے کم ہے۔ پاکستان کی 40% آبادی شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے صنعت کے کچھ اسٹیک ہولڈرز کا خیال ہے کہ وفاقی حکومت اب اہم زرعی بجٹ کا اعلان کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومتوں کو دے سکتی ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ زراعت کے شعبے کے لیے جاری مالی سال کی مختص رقم اس وقت بہت زیادہ تھی جب حکومت نے کسان پیکج کی رقم 1800 ارب روپے سے بڑھا کر 2250 ارب روپے کر دی تھی پچھلی حکومت کا خیال تھا کہ پیکیج کے ذریعے فصلوں کی مزید بہتری کے لیے تقریباً 2000 ارب روپے دیہی معیشت میں منتقل کیے گئے تھے۔ سبسڈی کے لیے مختص کی کمی عام کسانوں کے لیے کھاد، کیڑے مار ادویات وغیرہ کی خریداری میں مزید مسائل کا باعث بن سکتی ہے وفاقی بجٹ میں زرعی شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا پاکستان زراعت کے لیے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، ہمیں اپنی قدیم وادی سندھ کی تہذیب پر فخر ہے جس کی بنیاد زراعت پر تھی، تاہم بہت سے عوامل جن میں موسمیاتی تبدیلی، قدرتی وسائل میں کمی، ان پٹ کی قیمتوں میں اضافہ، فارم مشینری کی کمی اور منڈیوں میں اتار چڑھائو شامل ہیں، کی وجہ سے پاکستان میں زرعی پیداوار کے شعبہ کو کافی مشکلات درپیش ہیں ,بدقسمتی سے پاکستان میں شدید موسمی حالات کی وجہ سے فصلوں کا نقصان ایک معمول بنتا جا رہا ہے، اس لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنا، فصلوں کے نقصانات کو کم کرنا، پیداوار کو بہتر بنانا اور ذرائع معاش کو بڑھانا ہمارے بڑے چیلنجز ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کے لئے تشویشناک ہے جس کا انحصار گندم کی پیداوار پر ہے اور یہ متوقع قلت ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے جب گندم کی عالمی سپلائی غیر یقینی ہو، اس صورتحال نے پاکستان میں غذائی تحفظ کے ہمارے چیلنجوں میں اضافہ کر دیا ہے آئیے ہم یہ عہد کریں کہ برادریوں، معاشروں اور دنیا کے لئے بڑے پیمانے پر خوراک کو محفوظ بنانے کے لیے انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے لیے مل کر کام,موسمیاتی تبدیلی سے غذائی تحفظ کو لاحق خطرات پر قابو پانے کے لیے کام کرنے والی فورسز میں شامل ہونے کا عزم کریں۔

