اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) افغانستان عالمی دہشت گردی کا مرکز
Share
اسلام آباد (ڈیجیٹل پوسٹ) پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت کئی سال سے عالمی برادری کو مسلسل خبردار کر رہی ہے کہ افغان عبوری حکومت دہشت گردوں کی پناہ گاہ بنی ہوئی ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی معاونت پاکستان میں دہشت گردی کا موجب ہے افغانستان میں پناہ گزین دہشت گرد افغان عبوری حکومت کی معاونت سے بآسانی سرحد پار کرکے پاکستانی علاقوں میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے بعد پھر سے افغان حکومت کی پناہ گاہ میں چلے جاتے ہیں دہشت گردی ایک عالمی خطرہ ہے اور ہر خط اس وقت اس خطرے سے نبرد آزما ہے اس حوالے سے ہر خطے اور ہر ملک کے چیلنجز الگ الگ ہیں مگر اس مذموم کارروائی کے مقاصد بالکل واضح ہیں وطن عزیز میں دہشت گردی کے واقعات کے پیچھے پاکستان کی ترقی کو نشانہ بنانے اور دوست ممالک سے بد اعتماد پیدا کرنے جیسے مذموم مقاصد کار فرما ہیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران پاکستان کی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہمارے سینکڑوں فوجی افسر و جوان پولیس افسر اور سپاہی ایف سی کے افسر و سپاہی اور بے گناہ شہری شہید ہوئے اس کے باوجود جن کی خاطر پاکستان نے یہ زخم سہے تھے وہ آج ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمیں ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں ٹی ٹی پی کے سارے نظام خصوصا مالی نظام کے پیچھے بھارت ہے افغان حکومت ٹی ٹی پی کو نہ صرف مالی مدد بلکہ ان کی تربیت اور افرادی قوت بھی فراہم کر رہی ہے پاکستان نے افغانوں کا مقدمہ ہر فورم پر لڑا ہے لاکھوں افغان باشندے اب تک پاکستان میں مقیم ہیں لیکن افغانستان کی ہر حکومت نے پاکستان کی مخالفت کی ہے اور افغانستان سے ہی دہشت گرد پاکستان پر حملے کر رہے ہیں اور افغان حکومت ان کی بھرپور سرپرستی کر رہی ہے پڑوسی ملک میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور دیگر گروہوں کی پناہ گاہیں انہیں کارروائی کی آزادی دہشت گردوں کے پاس جدید ترین ہتھیاروں کی دستیابی پاکستان کی سلامتی بقاء اور امن وامان کی صورت حال کو متاثر کرنے کی بڑی وجوہات ہیں افغان عبوری حکومت کی مسلسل غیر ذمہ داری دہشت گردی کوفروغ دینے کی پالیسی اور جارحانہ اقدعامات کے باوجود پاکستان بات چیت کے ذریعے معاملات سلجھانے کی کوششیں کرتا چلا آرہا ہے مگر کچھ حاصل نہیں ہو رہا پاکستان میں دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے باوجود افغان حکومت پاکستان کے جائز مطالبات کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے مضحکہ خیر انداز سے اس کا جواب دے رہی ہے افغانستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ جارحیت کے واقعات سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ افغان طالبان کی حکومت پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے اور دہشت گردی کے ہر واقعے کی براہ راست ذمہ دار ہےافغان طالبان عبوری حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کیلئے شدید خطرات کا باعث ہے موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ علاقائی ممالک اور عالمی برادری افغانستان میں ابھرنے والے خطرات کا صحیح طور پر جائزہ لیں اور سدباب کے لئے ضروری اقدامات کریں اس سلسلے میں طالبان کی عبوری حکومت کو جوابدہ بنانا ضروری ہے افغانستان اگر عالمی دہشت گردی کے لئے پناہ گاہ بنتا ہے تو اس کے اثرات خطے کے ممالک کی سیکورٹی کے ساتھ ساتھ ان معاشی امکانات پر بھی ہوں گے جن سے درجنوں ممالک کی معاشی ترقی کا خواب جڑا ہوا ہے افغانستان کا رویہ ثابت کر رہا ہے کہ اس نے دو دہائیوں کے غیر ملکی تسلط اور ہر طرح کی تباہی سے بھی کچھ نہیں سیکھا اور بدستور اپنی سر زمین کو دہشت گردی کی آمجگاہ بنائے رکھنے پر آمادہ ہے ان حالات میں پاکستان اپنی سالمیت اور اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے اور پوری قوم اس سے متفق ہے کہ قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا دہشت گردی کو جامع دفاعی حکمت عملی اور قومی ہم آہنگی کا مضبوط بند باندھ کر ہی ختم کیا جاسکتا ہے اگر ہم اندرونی طور پر مضبوط ہوں گے تو بیرونی دشمن کو جرات نہیں ہوگی کہ وہ ہمارے ملک کے خلاف کسی بھی سازش یا جارحیت کا ارتکاب کرسکے بلا شبہ امن کا کوئی متبادل نہیں مگر موجودہ صورتحال میں افغان سرزمین سے دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے پاکستان کے مطالبات پر سنجیدہ اقدامات کے بغیر دونوں ممالک کے تعلقات کا معمول پر آنا ممکن نظر نہیں آتا افغانستان کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ دہشت گرد کسی نظرئیے کے نہیں اپنے مفادات کے اسیر ہوتے ہیں جو اپنی بندوقوں کا رخ بدلنے میں دیر نہیں لگاتے اگر آج پاکستان ان کے نشانے پر ہے تو کل کو خود افغانستان کو بھی ان کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بہتر یہی ہوگا کہ افغان طالبان حکومت دہشت گردوں کی آبیاری کے بجائے ان کے بیخ کنی پر اپنی توجہ مرکوز کرے اور پاکستان جیسے آز مودہ ہمسائے کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دے کیونکہ دوست تو بدلے جاسکتے ہیں مگر ہمسائے مستقل ہوتے ہیں خطے کے ممالک کی بھی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس حوالے سے مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں کیونکہ ابھرنے والے خطرات کسی ایک نہیں بلکہ تمام خطے کے ممالک کے لئے یکساں خطرہ ہیں**

