LOADING

Type to search

BREAKING NEWS National

اسلام آباد(ڈیجیٹل پوسٹ) مقصد عزاداری اور ہماری ذمہ داری

Share

مقصد عزاداری اور ہماری ذمہ داری…….
عزاداری اہم ترین عبادت ہےمقصد عزاداری کو ہماری ذمہ داری بھی ہے عزاداری کےکچھ خاص آداب ہیں جس سےعزاداری کی فضیلت اور اجر و ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔
محرم وہ عظیم درسگاہ ہے جہاں سے ہر انسان اپنی معرفت و بساط کے مطابق کچھ نہ کچھ حاصل کرکے جاتا ہے اور ایک عزادار کی بھی یہی نیت ہونی چاہئے کہ فرش عزا سے کچھ نہ کچھ سیکھ کراٹھے ۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام فرماتے ہیں کہ جب بھی محرم کا مہینہ داخل ہوتا تھا تو کوئی بھی میرے بابا کو ہنستا ہوا نہیں پاتا تھا اور غم و اندوہ میرے بابا پر غالب آجاتا تھا یہاں تک کہ محرم کے دس دن گرز جاتے تھے
پس جب عاشور کا دن آتا تھا تو یہ دن میرے بابا کے لئے مصیبت ، حزن و بکاء کا دن ہوتا تھا اور وہ کہتے تھے ( ہائے ) اس دن امام حسین علیہ السلام قتل کردئے گئے ۔ہماری دینی تہذیب اور ثقافت میں ائمہ معصومین علیہ السلام سے محبت عزاداری ہے۔ یعنی ان عظیم ہستیوں اور امام حسین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہ السلام کے جاں نثار ساتھیوں اور اصحاب و انصار کی شہادت کی یاد منانا، ان کی قربانی کا تذکرہ کرنا، ان کے بے مثال جاں نثاری کا ذکر کرنا اور ان کے سوگ میں ماتم کرنا اور گریہ کرنا عزاداری ہے۔
عزاداری آغاز سے ہی خود رسول خدا صلى الله عليه وسلم اور ائمہ معصومین علیہ السلام کے دستور، حکم اور فرمان سے کی گئی ہے اور رفتہ رفتہ خاندان رسول خدا کی وفادار امت اور آپ کی عترت کے شیدائیوں کے درمیان ایک “دینی سنت” کی شکل اختیار کرگئی ۔ رسول خدا صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: “حسین علیہ السلام کی شہادت کے لئے مومنین کے دلوں میں حرارت اور گرمی ہے جو کبھی سرد اور خاموش نہیں ہوتی۔”
ہم لوگ اس خداداد شوق و رغبت اور جوش و خروش کو اپنے دل و جان کی گہرائی میں محسوس کرتے ہیں اور پوری زندگی چشمہ کی طرح اس صاف و شفاف چشمہ سے نوش کرتے ہیں اور اس کی تازگی محسوس کرتے ہیں۔
خاندانرسول خدا صلى الله عليه وسلم بالخصوص سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کی محبت اور مودت نے بیج کی طرح ہمارے دلوں میں ڈال دیا ہے لہذا اس بیج کو پروان چڑھانا ہماری ذمہ داری ہے اور اس عشق و محبت کے پودے کو مثمر ثمر بنائیں اور پوری عمر اس کے ثمرات سے بہرہ مند ہوں۔

دوسری طرف ائمہ معصومین علیہ السلام کی شہادت کے ایام میں سوگواری اور عزاداری کرنا، ان عظیم ہستیوں کے نام، ان کی یادوں اور تذکروں کو زندہ رکھنا اور دوسری طرف ان پاکیزہ نفوس کی تعلیمات پر عمل کرکے ان کی یادوں اور ناموں کو زندہ رکھنا اور اپنے الہی اور انسانی فریضہ پر عمل کرنا ہے۔ ان شعار اللہ کی تعظیم اور اسے احیاء کرنے کے آثار و برکتیں خود امت مسلمہ کی طرف پلٹتی ہیں اور اس راہ سے یہ لوگ اپنے دینی پیشواؤں اور اولیائے دین سے اپنی محبت، اپنے لگاؤ اور عشق کا اظہار کرتے اور اپنے جذبات کا ثبوت دیتے ہیں۔ لہذا اس دینی شعائر کا مقصد اور فلسفہ زیادہ سے زیادہ پہچانا جائے، اس کے سابقہ کی طرف اشارہ کیا جائے اور عصر حاضر میں اس دیر پا مذہبی سنت سے فیضیاب ہونے کی راہوں کی طرف بھی اشارہ ہو۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
“میں اس قسم کی مجلسوں کو دوست رکھتا ہوں لہذا ہمارے امر (امامت) کو زندہ رکھو، خدا اس پر رحمت کرے جو ہماری امر (ہماری راہ اور ہمارےمقصد) کو زندہ رکھے۔”اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ خاندان رسالت کی یادوں، ان کی ناموں اور ان کی خدمات کا (ہر خوشی، غم، ان کی ولادت اور شہادت) کے موقع پر تذکرہ کرو اور ان کے فضائل اور مناقب بیان کرو کیونکہ اس سے انسانیت اور آدمیت زندہ ہوتی ہے۔ انسانی اقدار اور اصول کی پاسداری ہوتی ہے۔ ظلم و جور کی نقاب کشائی اور حق و صداقت کی جلوہ نمائی ہوتی ہے۔ اس میں امن و امان اور صلح و آشتی، تعلیم و تربیت کا پیغام ہوتا ہے۔ کسی شخص اور شخصیت کی ذاتی تعریف و توصیہ نہیں ہے بلکہ اس کے الہی اور انسانی فرائض کا ذکر ظلم و بربریت اور درندگی و حیوانیت کے خاتمہ کا باعث ہوگا، ظلم و زیادتی تجاوز و ستمگری کی بنیاد اکھڑ جائے گی۔ فرعونیت اور شدادیت، سفیانیت اور یزیدیت کا جنازہ نکل جائے گا۔ انسانوں کو عزت و شرافت، عظمت و بلندی نصیب ہوگی۔ حضرت امام خمینی (رح) نے فرمایا ہے: “ہم لوگ ان گریہ و زاری، نوحہ و مرثیہ خوانی، شعر خوانی اور نثر ونظم خوانی اور خطابت و ذاکری سے اس مکتب کو حفظ کرنا چاہتے ہیں جس طرح اب تک محفوظ رہا ہے۔ ”
عزاداری اور ہماری ذمہ داری پرمعروف مذہبی سکالرمولانا سید نثار حسین لکھتے ہیں کہ دین اسلام میں تمام عبادات کے ساتھ ساتھ کچھ آداب بھی ذکر ہوئے ہیں جو ان اعمال و عبادات کی فضیلت اور ثواب میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اسی طرح ابی حضرت امام حسین علیہ السلام اور آپ کے باوفا اصحاب پر گریہ و زاری کرنا اور ان کی یاد مناتے ہوئے ان کی عزاداری اور ماتم کرنا بھی ایک اہم ترین عبادت ہے جسکے بھی کچھ خاص آداب ہیں جن سےاس عبادت کی فضیلت اور اجر و ثواب میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں اور واقعا ایک حقیقی عزادار حضرت امام حسین علیہ السلام کی ذمہ داری بھی یہی ہونی چاہئے کہ وہ اس عزاداری کو تمام تر آداب اور احترام کا خیال رکھتے ہوئے بی بی دوعالمؐ کی خدمت میں پرسہ دیں
اس لئے کہ محرم آل محمد صلى الله عليه وسلم کے مصائب کا مہینہ ہے ، محرم کا مہینہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف اپنے جد مظلومؑ کو یاد کرتے ہوئے خون کے آنسو روتے ہیں۔ یہ مہینہ عظیم مہینہ ہے لہٰذا ایک عزادار کے لئے ضروری ہے کہ وہ جتنا ہوسکے
حضرت امام حسین علیہ السلام کے اس عظیم قربانی کے مقصد اور اہمیت کو سمجھتے ہوئے اپنے رفتار، گفتار اور کردار اور ماتم کے ذریعے سے دنیا والوں کو مقصد حسینؑ سے آگاہ کرے ،
جب یہ مہینہ اس قدر با عظمت اور غم و اندوہ کا مہینہ ہے تو ایک عزادار اور ماتم دار کے لئے ضروری ہے کہ اس میں اپنے کانوں ، آنکھوں ، ہاتھوں ، زبان اور بدن کے دیگر اعضاء کو گناہوں سے بچائے رکھے
تاکہ ہمارا گریہ ، ماتم ، مجالس اور دیگر ہر وہ عمل جو ہم ایک عزادار ہونے کے اعتبار سے انجام دیتے ہیں وہ بارگاہ حضرت امام حسین علیہ السلام میں قبول ہو ۔
لہذا آداب کا خیال رکھنا ایک ماتمی اور عزادار کے لئے بہت ضروری ہےاس لئے ہر وقت ہمیں زبان کو لہویات ، خرافات اور فضول باتوں سے محفوظ رکھنا چاہئے تاکہ اس ماہ میں جو کچھ بھی پرسہ ہم ‘مجلس، مرثیہ ، سلام اور نوحہ اور ماتم کی صورت میں پیش کریں گے وہ پاک زبان پر جاری ہو۔
کربلا والوں کی مصیبت کو سن کر ہم جو آنسووں کے نذرانے پیش کرتے ہیں ضروری ہے کہ یہ آنسو دل کی آنکھوں سے نکلے اور آنسو نہ نکلنے کی صورت میں رونے جیسی صورت بنائے ۔ اسی طرح ہر وہ عزادار جو مختلف انداز میں حضرت امام حسین علیہ السلام کی بارگاہ میں نوکری کرتے ہیں اسے خلوص نیت کے ساتھ اور خوشنودی خدا و رسولؐ خدا کے لئے انجام دینا چاہے اس لئے کہ ہر وہ عمل جو ظاہری طور پر دکھنے میں چھوٹا محسوس ہوتا ہے اگر خلوص نیت کے ساتھ انجام دیا جارہا ہو تو وہ اس عمل سے لاکھ گنا بہتر ہے جس میں خلوص اور خوشنودی خدا و رسول خدا نہ ہو چاہے دکھنے میں وہ عمل کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو ۔
لہٰذا چاہے مجلس ہو ، چاہے مرثیہ و سوز و سلام و نوحہ و ماتم ہو، یا چاہے تبرک ہو ، ان سارے کاموں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے انہیں خلوص نیت اور خوشنودئی مظلوم کربلاؑ کے لئے انجام دینا چاہئے ۔
مجلس کے دوران اپنے آپ کو فضول کاموں ( موبائیل وغیرہ ) میں مشغول نہ رکھتے ہوئے فرش عزا پر تشریف لانا چاہئے اس لئے کہ یہ وہ فرش ہے جہاں مظلوم کربلاؑ حضرت امام حسین علیہ السلام کی مصیبت سننے شہزادی کونین علیہ السلام خود تشریف لاتی ہیں
لہذا ایک عزادار و ماتم دار کو یہ بالکل زیب نہیں دیتا کہ فرش عزا خالی رہے اور عزادار باہر دوسرے فضول کاموں میں مشغول رہے
لہٰذا ہم ایک عزادار مظلومؑ کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام ہونے کے ناطے ضروری ہے کہ پہلے سے فرش عزا پر تشریف لاکر عالم و ذاکر کے فضائل و بیانات سے استفادہ حاصل کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی تلقین کریں ۔
ہر عزادار و ماتم دار کو چاہئے کہ مفہوم عزاداری اور مقصد عزاداری کو سمجھ کر شعورِ حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ اس اہم ترین عبادت کو اسکے تمام احکام و آداب کا خاص خیال رکھتے ہوئے انجام دے تاکہ ہماری یہ عبادت، یہ مجلس ، یہ گریہ و ماتم خدا کی بارگاہ میں مقبول واقع ہو اور یہی عمل دنیا و آخرت میں ہماری نجات کا سبب بنے۔
اس کے ساتھ ساتھ علماء کرام، زاکرین کو ملکی قوانین اور اخلاقیات پرعمل کرنا چاہیے۔پاکستان علماء کونسل نے محرم الحرام میں امن و امان کے قیام، بین المسالک و بین المذاہب ہم آہنگی و رواداری کیلئے انتہا پسندی، دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کیلئے تمام مکاتب فکر اور مذاہب کی مشاورت سے پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے۔
پیغام پاکستان ضابطہ اخلاق سے تصادم کا راستہ مفاہمت کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
محرم الحرام میں امن و امان کی یہ ذمہ داریاں صرف حکومت اور اس کے اداروں پر ہی نہیں بلکہ علماء، ذاکرین، واعظین، خطباء اور عوام الناس پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ ماضی میں محرم الحرام کے دوران ہونے والے فسادات کو دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہے کہ چھوٹی سی غیر ذمہ داری یا جذباتی اندازامن کیلئے خطرہ بن جاتا ہے ۔
ملک بھر بالخصوص پنجاب میں محرم الحرام میں محکمہ داخلہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے موبائل فون سروس جام کرنے کی سفارشات مانگ لی ہیں۔ نو اور دس محرم الحرام کو پنجاب بھر میں دفعہ 144 نافذ کردی جائے گی۔ پنجاب بھر کے حساس مقامات پر ایلیٹ فورس اور رینجرز تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ پنجاب پولیس نے یوم عاشور پر سکیورٹی بیک اپ کے لیے نے پاک فوج اور پنجاب رینجرز کی خدمات حاصل کرنے کی بھی سفارش کی ہے پنجاب حکومت نے اس بار امن کو سبوتاژ کرنے کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے ایک آؤٹ آف دی باکس فیصلہ لیا ہے، توقع ہے کہ وزارت داخلہ فوری ردعمل دے گا تاکہ محرم کے دوران امن کو یقینی بنایا جا سکے۔ پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر 9 اور 10 محرم کو سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے پر غور کیا، تاہم اس سے کہیں زیادہ عوامل ہیں کیونکہ نفرت انگیز مواد اور میمز کو سرحد پار سے شیئر کرنے کے ساتھ ساتھ فنڈنگ ​​کی اطلاعات ہیں، موجودہ حالات میں انٹرنیٹ اور موبائل جیمنگ کی معمولی معطلی کام نہیں کر سکتی۔
قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر نے تسلیم کیا کہ کابینہ کمیٹی نے نفرت انگیز مواد کو پھیلانے سے بچنے کے لیے سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی تجویز پیش کی۔رپورٹ کے مطابق محرم الحرام میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے پنجاب میں فوج اور رینجرزطلب کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، ترجمان محکمہ داخلہ کا کہنا ہے کہ فوج اور رینجرز کی 150 کمپنیوں کی خدمات طلب کی گئی ہیں۔فوج کی 69 اور رینجرز کی 81 کمپنیاں تعینات کرنے کے لیے مراسلہ جاری کردیاگیا، ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب نے کہا کہ یکم سے 12 محرم کے دوران خدمات طلب کی گئیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل حکومت پنجاب نے وزارت داخلہ سے 6 سے 11 محرم تک انٹرنیٹ پر سوشل میڈیا ایپس کو بند کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ فرقہ وارانہ تشدد سے بچنے کے لیے نفرت انگیز مواد اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جا سکے۔ یہ اطلاعات ملنے کے بعد کہ ’بیرونی طاقتیں‘، بشمول سرحد پار عناصر، نفرت انگیز مواد اور میمز شیئر کرنے میں ملوث ہیں، حکومت نے عاشورہ کے موقع پر انٹرنیٹ کی معطلی اور موبائل جام کرنے کے معمول کے اقدامات سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے لا اینڈ آرڈر اور محکمہ داخلہ پنجاب کی رائے ہے کہ انٹرنیٹ بند کرنے سے عام لوگوں کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جبکہ زیادہ تر غلط معلومات اور نفرت انگیز مواد سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے پھیلایا جاتا ہے، جسے اس وقت بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، جب انٹرنیٹ بند ہو۔محکمہ داخلہ نے سیکریٹری داخلہ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ سوشل میڈیا پلیٹ ایپس (فیس بک، واٹس ایپ، انسٹا گرام، یوٹیوب، ٹوئٹر، ٹک ٹاک وغیرہ) کو صوبے بھر میں 6 تا 11 محرم تک معطل کیا جائے تاکہ نفرت انگیز مواد، غلط معلومات پر قابو پانے اور فرقہ وارانہ تشدد سے بچا جاسکے۔محرم کے دوران سوشل میڈیا ایپس خاص طور پر فیس بک اور ایکس پر نفرت انگیز مواد کئی گنا بڑھ جاتا ہے جو کہ آخر کار دو فرقوں کے درمیان تنازع کی وجہ بن جاتا ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Translate »